John 8 (UGV2)
1 عیسیٰ خود زیتون کے پہاڑ پر چلا گیا۔ 2 اگلے دن پَو پھٹتے وقت وہ دوبارہ بیت المُقدّس میں آیا۔ وہاں سب لوگ اُس کے گرد جمع ہوئے اور وہ بیٹھ کر اُنہیں تعلیم دینے لگا۔ 3 اِس دوران شریعت کے علما اور فریسی ایک عورت کو لے کر آئے جسے زنا کرتے وقت پکڑا گیا تھا۔ اُسے بیچ میں کھڑا کر کے 4 اُنہوں نے عیسیٰ سے کہا، ”اُستاد، اِس عورت کو زنا کرتے وقت پکڑا گیا ہے۔ 5 موسیٰ نے شریعت میں ہمیں حکم دیا ہے کہ ایسے لوگوں کو سنگسار کرنا ہے۔ آپ کیا کہتے ہیں؟“ 6 اِس سوال سے وہ اُسے پھنسانا چاہتے تھے تاکہ اُس پر الزام لگانے کا کوئی بہانہ اُن کے ہاتھ آ جائے۔ لیکن عیسیٰ جھک گیا اور اپنی اُنگلی سے زمین پر لکھنے لگا۔ 7 جب وہ اُس سے جواب کا تقاضا کرتے رہے تو وہ کھڑا ہو کر اُن سے مخاطب ہوا، ”تم میں سے جس نے کبھی گناہ نہیں کیا، وہ پہلا پتھر مارے۔“ 8 پھر وہ دوبارہ جھک کر زمین پر لکھنے لگا۔ 9 یہ جواب سن کر الزام لگانے والے یکے بعد دیگرے وہاں سے کھسک گئے، پہلے بزرگ، پھر باقی سب۔ آخرکار عیسیٰ اور درمیان میں کھڑی وہ عورت اکیلے رہ گئے۔ 10 پھر اُس نے کھڑے ہو کر کہا، ”اے عورت، وہ سب کہاں گئے؟ کیا کسی نے تجھ پر فتویٰ نہیں لگایا؟“ 11 عورت نے جواب دیا، ”نہیں خداوند۔“عیسیٰ نے کہا، ”مَیں بھی تجھ پر فتویٰ نہیں لگاتا۔ جا، آئندہ گناہ نہ کرنا۔“ 12 پھر عیسیٰ دوبارہ لوگوں سے مخاطب ہوا، ”دنیا کا نور مَیں ہوں۔ جو میری پیروی کرے وہ تاریکی میں نہیں چلے گا، کیونکہ اُسے زندگی کا نور حاصل ہو گا۔“ 13 فریسیوں نے اعتراض کیا، ”آپ تو اپنے بارے میں گواہی دے رہے ہیں۔ ایسی گواہی معتبر نہیں ہوتی۔“ 14 عیسیٰ نے جواب دیا، ”اگرچہ مَیں اپنے بارے میں ہی گواہی دے رہا ہوں توبھی وہ معتبر ہے۔ کیونکہ مَیں جانتا ہوں کہ مَیں کہاں سے آیا ہوں اور کہاں کو جا رہا ہوں۔ لیکن تم کو تو معلوم نہیں کہ مَیں کہاں سے آیا ہوں اور کہاں جا رہا ہوں۔ 15 تم انسانی سوچ کے مطابق لوگوں کا فیصلہ کرتے ہو، لیکن مَیں کسی کا بھی فیصلہ نہیں کرتا۔ 16 اور اگر فیصلہ کروں بھی تو میرا فیصلہ درست ہے، کیونکہ مَیں اکیلا نہیں ہوں۔ باپ جس نے مجھے بھیجا ہے میرے ساتھ ہے۔ 17 تمہاری شریعت میں لکھا ہے کہ دو آدمیوں کی گواہی معتبر ہے۔ 18 مَیں خود اپنے بارے میں گواہی دیتا ہوں جبکہ دوسرا گواہ باپ ہے جس نے مجھے بھیجا۔“ 19 اُنہوں نے پوچھا، ”آپ کا باپ کہاں ہے؟“ عیسیٰ نے جواب دیا، ”تم نہ مجھے جانتے ہو، نہ میرے باپ کو۔ اگر تم مجھے جانتے تو پھر میرے باپ کو بھی جانتے۔“ 20 عیسیٰ نے یہ باتیں اُس وقت کیں جب وہ اُس جگہ کے قریب تعلیم دے رہا تھا جہاں لوگ اپنا ہدیہ ڈالتے تھے۔ لیکن کسی نے اُسے گرفتار نہ کیا کیونکہ ابھی اُس کا وقت نہیں آیا تھا۔ 21 ایک اَور بار عیسیٰ اُن سے مخاطب ہوا، ”مَیں جا رہا ہوں اور تم مجھے ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے گناہوں میں مر جاؤ گے۔ جہاں مَیں جا رہا ہوں وہاں تم نہیں پہنچ سکتے۔“ 22 یہودیوں نے پوچھا، ”کیا وہ خود کشی کرنا چاہتا ہے؟ کیا وہ اِسی وجہ سے کہتا ہے، ’جہاں مَیں جا رہا ہوں وہاں تم نہیں پہنچ سکتے‘؟“ 23 عیسیٰ نے اپنی بات جاری رکھی، ”تم نیچے سے ہو جبکہ مَیں اوپر سے ہوں۔ تم اِس دنیا کے ہو جبکہ مَیں اِس دنیا کا نہیں ہوں۔ 24 مَیں تم کو بتا چکا ہوں کہ تم اپنے گناہوں میں مر جاؤ گے۔ کیونکہ اگر تم ایمان نہیں لاتے کہ مَیں وہی ہوں تو تم یقیناً اپنے گناہوں میں مر جاؤ گے۔“ 25 اُنہوں نے سوال کیا، ”آپ کون ہیں؟“عیسیٰ نے جواب دیا، ”مَیں وہی ہوں جو مَیں شروع سے ہی بتاتا آیا ہوں۔ 26 مَیں تمہارے بارے میں بہت کچھ کہہ سکتا ہوں۔ بہت سی ایسی باتیں ہیں جن کی بنا پر مَیں تم کو مجرم ٹھہرا سکتا ہوں۔ لیکن جس نے مجھے بھیجا ہے وہی سچا اور معتبر ہے اور مَیں دنیا کو صرف وہ کچھ سناتا ہوں جو مَیں نے اُس سے سنا ہے۔“ 27 سننے والے نہ سمجھے کہ عیسیٰ باپ کا ذکر کر رہا ہے۔ 28 چنانچہ اُس نے کہا، ”جب تم ابنِ آدم کو اونچے پر چڑھاؤ گے تب ہی تم جان لو گے کہ مَیں وہی ہوں، کہ مَیں اپنی طرف سے کچھ نہیں کرتا بلکہ صرف وہی سناتا ہوں جو باپ نے مجھے سکھایا ہے۔ 29 اور جس نے مجھے بھیجا ہے وہ میرے ساتھ ہے۔ اُس نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا، کیونکہ مَیں ہر وقت وہی کچھ کرتا ہوں جو اُسے پسند آتا ہے۔“ 30 یہ باتیں سن کر بہت سے لوگ اُس پر ایمان لائے۔ 31 جو یہودی اُس کا یقین کرتے تھے عیسیٰ اب اُن سے ہم کلام ہوا، ”اگر تم میری تعلیم کے تابع رہو گے تب ہی تم میرے سچے شاگرد ہو گے۔ 32 پھر تم سچائی کو جان لو گے اور سچائی تم کو آزاد کر دے گی۔“ 33 اُنہوں نے اعتراض کیا، ”ہم تو ابراہیم کی اولاد ہیں، ہم کبھی بھی کسی کے غلام نہیں رہے۔ پھر آپ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہم آزاد ہو جائیں گے؟“ 34 عیسیٰ نے جواب دیا، ”مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں کہ جو بھی گناہ کرتا ہے وہ گناہ کا غلام ہے۔ 35 غلام تو عارضی طور پر گھر میں رہتا ہے، لیکن مالک کا بیٹا ہمیشہ تک۔ 36 اِس لئے اگر فرزند تم کو آزاد کرے تو تم حقیقتاً آزاد ہو گے۔ 37 مجھے معلوم ہے کہ تم ابراہیم کی اولاد ہو۔ لیکن تم مجھے قتل کرنے کے درپَے ہو، کیونکہ تمہارے اندر میرے پیغام کے لئے گنجائش نہیں ہے۔ 38 مَیں تم کو وہی کچھ بتاتا ہوں جو مَیں نے باپ کے ہاں دیکھا ہے، جبکہ تم وہی کچھ سناتے ہو جو تم نے اپنے باپ سے سنا ہے۔“ 39 اُنہوں نے کہا، ”ہمارا باپ ابراہیم ہے۔“ عیسیٰ نے جواب دیا، ”اگر تم ابراہیم کی اولاد ہوتے تو تم اُس کے نمونے پر چلتے۔ 40 اِس کے بجائے تم مجھے قتل کرنے کی تلاش میں ہو، اِس لئے کہ مَیں نے تم کو وہی سچائی سنائی ہے جو مَیں نے اللہ کے حضور سنی ہے۔ ابراہیم نے کبھی بھی اِس قسم کا کام نہ کیا۔ 41 نہیں، تم اپنے باپ کا کام کر رہے ہو۔“اُنہوں نے اعتراض کیا، ”ہم حرام زادے نہیں ہیں۔ اللہ ہی ہمارا واحد باپ ہے۔“ 42 عیسیٰ نے اُن سے کہا، ”اگر اللہ تمہارا باپ ہوتا تو تم مجھ سے محبت رکھتے، کیونکہ مَیں اللہ میں سے نکل آیا ہوں۔ مَیں اپنی طرف سے نہیں آیا بلکہ اُسی نے مجھے بھیجا ہے۔ 43 تم میری زبان کیوں نہیں سمجھتے؟ اِس لئے کہ تم میری بات سن نہیں سکتے۔ 44 تم اپنے باپ ابلیس سے ہو اور اپنے باپ کی خواہشوں پر عمل کرنے کے خواہاں رہتے ہو۔ وہ شروع ہی سے قاتل ہے اور سچائی پر قائم نہ رہا، کیونکہ اُس میں سچائی ہے نہیں۔ جب وہ جھوٹ بولتا ہے تو یہ فطری بات ہے، کیونکہ وہ جھوٹ بولنے والا اور جھوٹ کا باپ ہے۔ 45 لیکن مَیں سچی باتیں سناتا ہوں اور یہی وجہ ہے کہ تم کو مجھ پر یقین نہیں آتا۔ 46 کیا تم میں سے کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ مجھ سے کوئی گناہ سرزد ہوا ہے؟ مَیں تو تم کو حقیقت بتا رہا ہوں۔ پھر تم کو مجھ پر یقین کیوں نہیں آتا؟ 47 جو اللہ سے ہے وہ اللہ کی باتیں سنتا ہے۔ تم یہ اِس لئے نہیں سنتے کہ تم اللہ سے نہیں ہو۔“ 48 یہودیوں نے جواب دیا، ”کیا ہم نے ٹھیک نہیں کہا کہ تم سامری ہو اور کسی بدروح کے قبضے میں ہو؟“ 49 عیسیٰ نے کہا، ”مَیں بدروح کے قبضے میں نہیں ہوں بلکہ اپنے باپ کی عزت کرتا ہوں جبکہ تم میری بےعزتی کرتے ہو۔ 50 مَیں خود اپنی عزت کا خواہاں نہیں ہوں۔ لیکن ایک ہے جو میری عزت اور جلال کا خیال رکھتا اور انصاف کرتا ہے۔ 51 مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں کہ جو بھی میرے کلام پر عمل کرتا رہے وہ موت کو کبھی نہیں دیکھے گا۔“ 52 یہ سن کر لوگوں نے کہا، ”اب ہمیں پتا چل گیا ہے کہ تم کسی بدروح کے قبضے میں ہو۔ ابراہیم اور نبی سب انتقال کر گئے جبکہ تم دعویٰ کرتے ہو، ’جو بھی میرے کلام پر عمل کرتا رہے وہ موت کا مزہ کبھی نہیں چکھے گا۔‘ 53 کیا تم ہمارے باپ ابراہیم سے بڑے ہو؟ وہ مر گیا، اور نبی بھی مر گئے۔ تم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو؟“ 54 عیسیٰ نے جواب دیا، ”اگر مَیں اپنی عزت اور جلال بڑھاتا تو میرا جلال باطل ہوتا۔ لیکن میرا باپ ہی میری عزت و جلال بڑھاتا ہے، وہی جس کے بارے میں تم دعویٰ کرتے ہو کہ ’وہ ہمارا خدا ہے۔‘ 55 لیکن حقیقت میں تم نے اُسے نہیں جانا جبکہ مَیں اُسے جانتا ہوں۔ اگر مَیں کہتا کہ مَیں اُسے نہیں جانتا تو مَیں تمہاری طرح جھوٹا ہوتا۔ لیکن مَیں اُسے جانتا اور اُس کے کلام پر عمل کرتا ہوں۔ 56 تمہارے باپ ابراہیم نے خوشی منائی جب اُسے معلوم ہوا کہ وہ میری آمد کا دن دیکھے گا، اور وہ اُسے دیکھ کر مسرور ہوا۔“ 57 یہودیوں نے اعتراض کیا، ”تمہاری عمر تو ابھی پچاس سال بھی نہیں، تو پھر تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ تم نے ابراہیم کو دیکھا ہے؟“ 58 عیسیٰ نے اُن سے کہا، ”مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں، ابراہیم کی پیدائش سے پیشتر ’مَیں ہوں‘۔“ 59 اِس پر لوگ اُسے سنگسار کرنے کے لئے پتھر اُٹھانے لگے۔ لیکن عیسیٰ غائب ہو کر بیت المُقدّس سے نکل گیا۔